فقیر اور بادشاہ "The Beggar and the King

QUOTES
0

فقیر اور بادشاہ 

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک فقیر جہاں بھی کہیں جاتا بس یہی صدا لگاتا۔”تین باتیں سن لو اور ہر بات کا معاوضہ سو روپے دے دو“ کوئی بھی اُس کی اس صدا پر کان نہ دھرتا تھا۔تنگ آکر فقیر دریا کی طرف نکل گیا۔وہ کنارے کنارے چلتا جاتا اور بڑبڑاتے ہوئے لوگوں کو کوستا جاتا تھا۔اتفاق کی بات ہے کہ وقت کا بادشاہ بھی سیر کیلئے وہاں آیا ہوا تھا۔ اُس نے فقیر کو کوستے ہوئے سنا تو اُسے بلا کر وجہ پوچھی۔فقیر نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا! ”میں تھکا ہارا (چندرا) بدنصیب ہوں۔“ جس نے قیمتی سودا سستے داموں فروخت کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی میری نہ سنی۔بادشاہ بولا! ”فقیر!اب کہو میں تمہاری شرط منظور کرتا ہوں۔“ فقیر خوشی خوشی تیار ہو گیا۔ اس کے بعد فقیر نے تین باتیں سنائیں۔ (1)”رات دا جگن بھلا“(یعنی رات کو جاگنا مفید ہے)پہلی بات بتا کر فقیر نے بادشاہ نے اُس کا معاوضہ سو روپے کی شکل میں حاصل کر لیا۔(2)”آون آلے دا آدھر بھلا“(یعنی آنے والے کی تکریم کرنے میں بھلائی ہے)دوسری بات سنا کر فقیر نے بادشاہ سے مزید سو روپے لے لئے۔(3)”ضدل بلا دے سر اچ سو کھلا۔“(یعنی ضدی کے سر میں جب تک سو جوتے نہ لگیں اُس کی اصلاح نہیں ہوتی)۔ یوں فقیر نے اپنی تیسری اور آخری بات کے عوض بھی سو روپے بھی لے لئے اور چلتا بنا۔وزیر نے عرض کیا!بادشاہ سلامت یہ تو عام سی باتیں تھیں آپ نے خواہ مخواہ فقیر کو اتنی اہمیت دی۔بادشاہ نے کہا!بات کو نہیں دیکھتے بات کے انجام کو دیکھتے ہیں۔اب تینوں باتوں کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے بادشاہ بھیس بدل کر رات کو محل سے نکل پڑا۔اُسے دو عورتوں کی آواز سنائی دی۔ ایک ہنس رہی تھی اور ایک رو رہی تھی۔بادشاہ نے باہر سے آواز دی۔وہ بولیں کون؟۔ بادشاہ نے کہا!پہرے دار۔وہ کہنے لگیں!جا چلا جا۔میں ہنس رہی ہوں میرا نام تدبیر ہے اور جو رو رہی ہے اُس کا نام تقدیر ہے۔بادشاہ نے اندر جھانک کر دیکھا تو خوبصورت عورتوں کے چہرے دکھائی دئیے۔دونوں نے کہا اس ملک کے بادشاہ کو شاہی باغ کے پیپل کا سانپ ڈس لے گا جس کے باعث بادشاہ کی موت واقع ہو گی۔ بادشاہ وہاں سے رخصت ہو کر سیدھا اپنے محل میں پہنچا۔اب وہ اس بات کی صداقت کو پرکھنا چاہتا تھا۔اُس نے شاہی خزانے سے صدقات و خیرات کی تقسیم شروع کر دی۔وہ سانپ کے متعلق سوچ رہا تھا۔اُس نے پیپل سے محل تک راستہ بنایا اور اُس پر کپاس بچھا دی۔اُس راستے کے دونوں طرف پھولدار پودے لگوائے اور سانپ کا انتظار کرنے لگا۔ایک خاص وقت پر سانپ پیپل کی شاخوں کے درمیان سے نکلا اور اُس نے زمین پر چھلانگ لگا دی۔ محل تک کا راستہ سانپ نے انتہائی آرام سے طے کیا۔سانپ اس بندوبست سے بہت خوش تھا۔محل میں پہنچا تو بادشاہ نفل پڑھ رہا تھا۔سانپ نے پھنکارتے ہوئے اپنی آمد کا یوں اعلان کیا۔ ”اے زمین کے ٹکڑے کے بادشاہ میں آگیا ہوں۔“ بادشاہ نے سکون سے نوافل کی ادائیگی جاری رکھی۔جب نوافل ختم ہو گئے تو آخری نفل کا سلام پھیر کر سر جھکا لیا اور بولا۔ ”لو رب کا حکم پورا کرو“ فرشتے کے دل میں رحم پیدا ہوا۔ فرشتے کی فریاد پر رب نے اجازت دے دی۔غیب سے آواز آئی آدھی زندگی اس کو اور آدھی تجھ کو بخشی۔سانپ حملہ آور ہونے کی بجائے واپس روانہ ہوا۔بادشاہ نے سانپ سے کہا!میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔سانپ نے جواب دیا:”خدمت وہی ہے جو غرض پوری ہونے سے پہلے کی جائے۔“ بادشاہ کو رات کو جاگنے اور آنے والے کی قدر کرنے کا صلہ مل گیا۔اب فقیر کی تیسری بات آزمانے کا وقت آن پہنچا۔ دوپہر کے وقت بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ (ست ماڑ) ساتویں منزل پر بیٹھا تھا نیچے شہر دکھائی دے رہا تھا۔۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب جانور بھی انسانوں کی طرح بولتے تھے۔ایک روٹھی ہوئی بھیڑ نے ”چھترے“ سے کہا۔اگر تم اس وقت گھاس لے آؤ تو میں مان جاؤں گی۔چھترے نے تین چھلانگیں لگائیں لیکن کامیاب نہ ہوا۔بھیڑ گھاس کے تقاضے پر مسلسل اڑی رہی۔ چھترے نے پہلے تو بہت منتیں کیں کہ گھاس کو بھول جاؤ جو باوجود کوشش کے نہیں حاصل ہو رہا۔ تنگ آکر چھترے نے اپنی جلد کو جھاڑا (چھنڈ کیا) اور پھر بھیڑ کو ایک زور دار ٹکر دے ماری۔بس ٹکر کا لگنا تھا کہ بھیڑ نے درد سے نڈھال ہو کر سر جھکا لیا اور ضد ترک کر دی۔بادشاہ یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑا۔ملکہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔بادشاہ نے صرف اس قدر جواب دیا۔”انسان بہتر کوٹھی“ ۔۔۔ ”دل بہتر کوٹھی“ بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں جانے دو۔ ملکہ نے جھنجھلا کر تاش کے پتے پھینک دئیے اور کہا ”اگر کوئی بات نہیں تو جاؤ پھر۔نہیں کھیلتی میں تاش۔“ ملکہ کی ہٹ دھرمی کو دیکھ کر بادشاہ طیش میں آگیا،اُس نے غصے کی حالت میں سو مرتبہ جوتی ملکہ کے سر میں دے ماری۔ملکہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ اس واقعہ کے بعد ملکہ آج کسی سے اُس کا حال نہ پوچھے گی (مراد یہ ہے کہ کبھی ادھوری باتوں کا مطلب نہ پوچھے گی) اس طرح فقیر کی تیسری بات کی سچائی بھی بادشاہ پر آشکارا ہو گئی

"The Beggar and the King 

Once upon a time, there was a beggar who would go wherever he could, repeatedly crying out, "Listen to three things and pay me a hundred rupees for each." No one paid attention to his cries. Frustrated, the beggar went towards the river, muttering and cursing people as he walked along the bank. As fate would have it, the king of the time was also out for a stroll there. Hearing the beggar cursing, the king called him over and asked the reason. The beggar introduced himself and said, "I am an unfortunate and weary (Chandra) soul, who tried to sell precious advice for a cheap price, but no one listened to me." The king replied, "Beggar, speak now; I accept your condition." The beggar happily agreed.

Then the beggar shared his three pieces of advice.

1. "Staying awake at night is beneficial." After sharing the first piece of advice, the beggar received a hundred rupees from the king.

2. "Respecting a guest is good." After sharing the second piece of advice, the beggar received another hundred rupees from the king.

3. "A stubborn person only mends after receiving a hundred blows to the head." After sharing the third and final piece of advice, the beggar received a hundred rupees and went on his way.

The minister said, "Your Majesty, these were ordinary things. You gave unnecessary importance to the beggar." The king replied, "It's not about the advice; it's about understanding its consequences." To verify the truth of the three pieces of advice, the king disguised himself and left the palace at night. He heard the voices of two women, one laughing and one crying. He called out from outside. They asked, "Who is it?" The king replied, "A guard." They said, "Go away. I am Laughing, and my name is Strategy, and the one who is crying is Fate." The king peeked inside and saw beautiful faces. They said, "The king of this land will be bitten by a snake from the royal garden's peepal tree, leading to his death."

The king returned to his palace and wanted to test this prophecy. He began distributing alms and charity from the royal treasury. He thought about the snake and had a path made from the peepal tree to the palace, lined with cotton and flowering plants on both sides, and waited for the snake. At a certain time, the snake emerged from the peepal tree and jumped to the ground. It comfortably traveled the path to the palace. When it reached the palace, the king was praying. The snake hissed, announcing its arrival, "O king of this piece of land, I have come." The king calmly continued his prayers. After finishing his last prayer, he bowed his head and said, "Go ahead, fulfill the command of the Lord." An angel felt pity and prayed for mercy. By God's will, a voice came from the unseen, granting half of the king's life to him and half to the snake. The snake, instead of attacking, retreated. The king asked the snake if he could do anything for him. The snake replied, "Service is only true when it is done before one's need is fulfilled." The king realized the reward of staying awake at night and respecting a guest. Now it was time to test the third piece of advice from the beggar.

One afternoon, the king was sitting with his queen on the seventh floor (Sat Maar) from where the city was visible. It was an era when animals could also speak like humans. A disgruntled sheep said to a ram, "If you bring grass now, I will agree." The ram tried thrice but failed. The sheep stubbornly insisted on the grass. The ram pleaded with the sheep to forget the grass that couldn't be obtained despite efforts. Frustrated, the ram shook its skin and then gave a strong headbutt to the sheep. As soon as the blow landed, the sheep, overwhelmed with pain, lowered its head and abandoned its stubbornness. Seeing this, the king laughed. The queen asked the reason for his laughter. The king simply replied, "Man better watch out... heart better watch out." The king said, "Never mind, let it go."

The queen, annoyed, threw the cards and said, "If it’s nothing, then go away. I won't play cards." Her obstinacy enraged the king, and in his fury, he struck her a hundred times on the head with a shoe. The queen fainted. After this incident, the queen would never inquire about half-spoken matters (meaning she would never ask the meaning of incomplete statements). In this way, the king realized the truth of the beggar's third piece of advice. 

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)